ہم بڑے جنہوں نے تعلیم و تربیت پائی وہ اپنی اولادوں کو کتنا اعتناء اور قابل اصلاح سمجھتے ہیں۔ سارے دن میں ان سے کتنا مخاطب ہوتے ہیں‘ کتنا ان کو دوست بناتے ہیں تو سچائی صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم بچوں کوغذا و لباس اور کتابیں مہیا کرکے اپنی دنیا میں مگن ہوجاتے ہیں اور اس کیلئے ہم جان جوکھم میں ڈال رہے ہیں اور ہو یہ رہا ہے کہ جب ہم رات گئے گھر جاتے ہیں تو بچے سورہے ہوتے ہیں اور جب ہم سو کر اٹھتے ہیں تو بچے سکول جاچکے ہوتے ہیں۔ جب یہ کیفیت ہوگی اور بچوں سے ہماری ملاقات نہیں ہوگی اور قدرت کے بنائے ہوئے ٹائم ٹیبل پر عمل نہیں کریں گے اور ناشتہ اکٹھے کرنا‘ شام کا کھانا اکٹھا کھایا جائے جیسی اہم روایات کو دہرائیں گے نہیں اس وقت تک اپنے بچوں کو مستقبل کا بہترین انسان بنانے میں کامیاب نہیں ہوپائیں گے۔ لیکن ہم تو ہفتے میں ایک بار بھی اس پر عمل کرنے سے کنی کتراتے اور اپنے آپ کو اپنی اولادوں سے دور رکھتے ہیں۔ بڑے حکیم صاحب مرحوم جب بھی گراؤنڈ میں نوجوانوں کو کھیلتا ہوا دیکھتے تو ان کھلاڑیوں کیلئے کوئی بھی کھانے پینے کی چیز مثلاً گنڈیریاں‘ چنے یا کوئی ایسی چیز لے جاتے اور ان میں بانٹتے۔ ایسا بھی ہوتا کہ کبھی کوئی کھانے کی چیز نہ بھی ہوتی یا فوری طور پر میسر نہ ہوتی لیکن ان سے بات چیت ضرور کرتے اور انہیں کہتے کہ ’’ہم ایک ٹیم کی شکل میں کھیل رہے ہیں یہ بتاؤ کہ تم شیطان کی ٹیم سے ہو یا رحمٰن کی ٹیم ہو‘‘ تو سب کہتے کہ ہم رحمٰن کی ٹیم ہیں تو فرماتے‘ آؤ پھر رحمٰن کو راضی کریں آپ نے کھیلنا بھی ہے اور آپکا یہ مسجد تک جانا‘ وضو کرنا اور نماز پڑھ کر واپس آکر کھیلنا‘ تو اللہ اس سے کتنے خوش ہوں گے۔ کتنی رحمت کی نظروں سے دیکھیں گے اور نماز کا بھی حرج نہیں ہوگا اور کھیل کا بھی حرج نہیں ہوگا۔ اس کا پارٹ آف گیم سمجھ لیں۔ اس کو پارٹ آف دی لائف سمجھ لیں کہ ہم نے کھیلنا ہے اور ساتھ ہی جہاں نماز کاوقت آگیا ہم اس کیلئے ہاف ٹائم بھی کردیں گے اور ہم نے بچپن میں یہ تربیت پائی کہ ہم شکار کھیل رہے ہیں اور فل بوٹ پہنے ہوئے ہیں اور ہمارے پینٹ اور بوٹ کیچڑ میں لت پت ہیں یا پانی سے تربتر ہیں اور جب نماز کا وقت آگیا ہے تو ایک سے کہا کہ اذان دے ایک سے کہا نماز پڑھاؤ اور پہلے یہ بات سمجھا دینی ہے کہ وضو کرکے پھر آپ فٹ بوٹ پہن لیں گے اب آپ سارے دن جو نمازیں پڑھیں گے یا تین دن نمازیں پڑھیں گے تو آپ کو بار بار
بوٹ اتارنے کی حاجت نہیں ہے‘‘ اللہ نے کتنی آسانیاں پیدا کیں ہیں اللہ کتنے رحیم و کریم ہیں اب ہم سارا دن شکار کھیل رہے ہیں کیچڑ اور گارا میں لت پت ہیں لیکن جب نماز کا وقت آیا تو باقاعدہ اسی صورت میں ہی جماعت کھڑی ہورہی ہے اور اذان ہورہی ہے۔ تو بچپن سے ایک چیز کو گھٹی میں ڈال دیاجائے تو پھر وہ بات واقعتاً مشکل نہیں رہتی۔ آج کل عموماً نوجوانوں میں دیکھا جائے تو بہت ساری چیزوں کا زوال ہی زوال ہے صحت کا بھی زوال ہے اخلاق کا بھی زوال ہے اور غذائی شوق کا بھی زوال ہے تو اس کیلئے ایک دوسرے کا ذہن تیار کرنے کیلئے باہم روابط کی کتنی ضرورت ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں